Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر5

کوئی ضرورت نہیں ہے میرے قریب آنے کی،" وہ بری طرح چلایا تھا، درد اس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ مگر وہ پھر بھی ڈھیٹ بنا، سہہ رہا تھا۔
"تم جو مرضی ڈرامے کرلو میں تمہیں، ایسی گندی حرکت کرنے کی بالکل اجازت نہیں دوں گا۔۔" مصطفیٰ صاحب اس کے باپ تھے، انہوں نے دگنی ہٹ دھرمی سے کہا۔
"کچھ تو خیال کریں بچے کی حالت کا، کیسے باپ ہیں آپ۔۔!!" فوزیہ بیگم تڑپ کر بولیں،
"کیا خیال کروں میں اس کا ، آپ نے اس کی حرکت نہیں دیکھی۔۔؟؟" مصطفیٰ صاحب بھڑکے۔
اب ، خون ، نسبتاً، ذرا آہستگی سے بہہ رہا تھا، عدیل کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں وہ تقریباً بے ہوش ہونے کو تھا۔
"حد ہے مصطفیٰ۔۔!! میرا بچہ یہاں مرنے کو ہورہا ہے، اور آپ کو اپنے غصے کی پڑی ہے۔۔!! عادل۔۔!! عادل!!" وہ زور سے چلائیں۔
عادل بھاگتا ہوا وہاں آیا، اس سے پہلے وہ اپنے کمرے میں تھا، اس نے عدیل کی کہی گئی باتیں نہیں سنی تھی  اس لیے، فی الوقت وہ لاعلم تھا۔
اور عدیل کی حالت دیکھ کر ،اسے زبردست جھٹکا لگا۔
 اُس میں مزید مزاحمت کرنے کی سکت نہیں تھی، وہ بے ہوش چکا تھا، اس لیے، فوزیہ بیگم نے سب سے پہلے ، اپنے دوپٹہ اس کے بازو سے باندھ کر خون کا بہاؤ روکنے کی کوشش کی، فرسٹ ایڈ باکس تو ان کے گھر تھا نہیں کیوں کہ کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی، اور نہ ہی احتیاطاً رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی، 
اس لیے اس وقت دوپٹے سے کام چلایا۔
عادل اور مصطفیٰ صاحب نے بڑی مشکل سے، اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔
××××××
فوزیہ بیگم ، بہت بے چینی سے ہاسپٹل کی راہداری میں، یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھیں۔
عدیل ابھی تک بے ہوش تھا، خون زیادہ بہنے کی وجہ سے اس کی حالت بہت خراب تھی، عادل اس کے لیے خون کا انتظام کرنے کے لیے دوڑیں لگا رہا تھا،  عدیل کا بلڈ گروپ ، سب گھر والوں سے مختلف تھا اس لیے وہ بھی اسے بلڈ ڈونیٹ نہیں کر سکے۔
وہ ابھی تک نہیں عدیل کی اس حالت کے پسِ منظر کے متعلق بے خبر تھا، اس لیے، پورے خلوص سے، اس کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔
مصطفیٰ صاحب، وہیں کاریڈور میں بچھے، بینچ پر بیٹھے، پریشانی سے سوچنے پر مجبور تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
ایک طرف ضمیر تھا تو ایک طرف، جان سے عزیز بیٹا۔۔ وہ شدید کشمکش میں تھے اور بالآخر ، کچھ دیر اسی شش و پنج میں مبتلا رہنے کے بعد انہوں نے حتمی فیصلہ کیا۔
×××××
اللّٰه اللّٰه کر کے عدیل کی حالت سنبھلی، اسے ہوش آ چکا تھا، اس وقت صبح کے چار بچ رہے تھے، فجر ہونے کو تھی، اس کے ہوش میں آتے ہی فوزیہ بیگم نے اسے دیکھنے سے پہلے ہی پرئیر ہال میں جا کر شکرانے کے نفل ادا کیے۔
×××
"شکر الحمدللّٰه بھائی۔۔!! آپ کو ہوش تو آیا، ورنہ آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔۔!! ویسے اب تک میں نے کسی سے پوچھا نہیں۔۔!! کیسے ہوا یہ سب۔۔؟؟" عادل نے اپنے پیارے سے لہجے میں پوچھا۔
عدیل نے اس کی تقریر سن کر دوسری طرف منہ پھیرا۔
"کیا ہوا بھائی۔۔؟؟ آپ ناراض ہیں مجھ سے؟؟" اس نے پریشانی سے پوچھا۔
عدیل، ہنوز خاموش رہا، اس کے ماتھے پر غصہ ابھرتا دکھائی دیا۔
"قاتل کہیں کا۔۔!! یہ بھی میری اریزے کا قاتل ہے۔۔!! یہ اگر اس دن اپنی منگیتر کو وہاں نہ لاتا تو، وہ اس سے ملنے کے لیے نیچے نہ آتی، نہ ہی واپس جاتے ہوئے گرتی۔۔ نہ ہی مجھ سے اتنا دور جاتی۔۔!!" وہ سختی سے لب بھینچے، یہ فضول اور بے تکی باتیں سوچتا گیا۔"
عادل، اس کے رویے سے ابھی تک پریشان تھا۔
××××××
نفل ادا کرنے کے بعد ، فوزیہ بیگم، عدیل کے پاس آئیں، اور اس کے قریب، اسی کے بیڈ پر بیٹھیں۔
انہیں دیکھ کر ، عدیل، اپنا رخ دوسری طرف پھیر گیا۔
"کیسا ہے میرا بیٹا اب۔۔؟؟" انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"یہ آپ اپنی جھوٹی کئیر ، اپنے پاس رکھیں۔۔!!" اس نے بدتمیزی سے کہا۔
اس وقت، اس پر ، بے تحاشہ جہالت سوار تھی، جس کا اظہار وہ بار بار،۔ اپنی حرکتوں کے ذریعے کر رہا تھا۔
فوزیہ بیگم کو ، اس کے رویے پر تکلیف ہوئی پر انہوں نے درگزر کرتے ہوئے پیار سے کہا،
 "بیٹا۔۔ اب تم ایسے بات کرو گے اپنی مام سے۔۔"
"مام۔۔!! مام۔۔!! پلیز کچھ کریں ناں۔۔!!" وہ ایک دم بدلا تھا۔۔ آنسو، اس کی آنکھوں سے جاری ہوئے۔
فوزیہ بیگم اس کے یک دم بدلنے پر حیران ہوئیں۔
"مام۔۔!! مجھے وہ چاہئیے۔۔!! آپ لا کر دیں مجھے۔۔!! مجھے عنقا چاہیے۔۔!!" وہ کسی عجیب احساس کے تحت بولا، وہ مزید شدت سے رویا۔۔ بری طرح بلک رہا تھا۔۔
فوزیہ بیگم کو اس کے رویے سے لگا کہ شاید اسے، عنقا میں اریزے نظر آتی ہوگی۔۔!! شاید وہ اس لیے اس کے لیے تڑپ رہا ہے۔
جبکہ اس کے آنسو تو اریزے کے لیے تھے۔۔ اور وہ اپنے انتقام کی حسرت میں رویا تھا، وہ تو عنقا کو تڑپانے، اسے ستانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔
فوزیہ بیگم کو بھی ،اس کی حالت دیکھ کر رونا آ رہا تھا۔
"مام۔۔!! مجھے عنقا کو سے شادی کرنی ہے۔۔!! مجھے وہ چاہتے۔۔!!" وہ ایک بار پھر بلک کر، تڑپ کر بولا۔
اس کے الفاظ، عادل کی سماعتوں پر کسی ، تلوار کی طرح حملہ آور ہوئے۔
وہ اپنے اور اپنی مام کے لیے چائے کے کپ کے کر کمرے میں داخل ہوا تھا کہ عدیل کے لفظوں نے اس کے قدم وہیں روک دیے۔
اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ آگے قدم بڑھاتا۔۔۔ وہ سکتے میں تھا۔۔ اسے یقین نہ آیا کہ جو کچھ اس نے سنا وہ سب سچ میں کہا گیا ہے۔۔ وہ بے یقین تھا کہ اس کا بھائی ایسا کیسے سوچ سکتا ہے۔۔!!

   1
0 Comments